
Table of Contents:
شہد: طب نبوی ﷺ اور سائنسی تحقیق میں ایک معجزاتی دوا
شہد، جسے عربی میں “عَسَل” کہا جاتا ہے، نہ صرف ایک قدرتی مٹھاس کے طور پر جانا جاتا ہے بلکہ طب نبوی ﷺ اور جدید سائنسی تحقیق دونوں میں ایک مؤثر دوا کے طور پر بھی اس کی قدر کی جاتی ہے۔ اسلامی روایت میں شہد کی اہمیت بہت گہری ہے، کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، احادیث میں اس کی تعریف کی گئی ہے، اور قدیم اسلامی علماء نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ جدید طب کی تجرباتی نوعیت کے برعکس، طب نبوی ﷺ وحی الٰہی اور نبی کریم ﷺ کی حکمت پر مبنی ہے، جو جسمانی، روحانی اور جذباتی صحت کو یکجا کرنے والا ایک جامع طریقہ علاج پیش کرتی ہے۔
قرآن مجید میں شہد کا ذکر: ایک الٰہی نسخہ
قرآن مجید میں شہد کی شفا بخش خصوصیات کو سورۃ النحل کی آیات 68-69 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے

اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ کچھ پہاڑوں میں سے گھر بنا اور کچھ درختوں میں سے اور کچھ اس میں سے جو لوگ چھپر بناتے ہیں۔ھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا، پھر اپنے رب کے راستوں پر چل جو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
(سورۃ النحل: 68-69)
یہ آیات نہ صرف شہد کی مکھیوں کی معجزاتی فطرت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ شہد کی شفا بخش طاقت کو بھی تسلیم کرتی ہیں، جو اسے ایک الٰہی طور پر منظور شدہ دوا بناتی ہے۔
علامہ المراغیؒ کی تفسیر: شہد کی کیمیائی ساخت
علامہ المراغیؒ کے مطابق، قرآن کی یہ آیت “يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ” شہد کی کیمیائی دولت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس میں 25 سے 40 فیصد گلوکوز، 30 سے 45 فیصد فرکٹوز اور 15 سے 25 فیصد پانی شامل ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شہد ایک قدرتی ٹانک اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے والا عنصر ہے، جو آرسینک، پارہ، ٹائیفائیڈ، نمونیا اور جگر کی بیماریوں جیسے امراض کے خلاف مؤثر ہے۔
(المراغی، 1946، جلد 14، صفحہ 106)
شیخ عبدالسلام بھٹویؒ کی تفسیر: شہد کی مکھی کا منظم نظام
شیخ عبدالسلام بھٹویؒ نے سورۃ النحل کی آیت 67 کی تفسیر میں شہد کی مکھیوں کے منظم نظام کو بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں ایک ملکہ کے تحت رہتی ہیں، ہر مکھی کا ایک مخصوص کردار ہوتا ہے جیسے دربان، نرس، معمار اور رس جمع کرنے والی۔ وہ اس نظم و ضبط، صفائی اور راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رہنمائی کا مظہر قرار دیتے ہیں۔
شہد کی مکھی صرف شہد بنانے والا کیڑا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقی حکمت کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے۔ قرآن مجید میں شہد کی مکھی کا ذکر محض علامتی نہیں بلکہ ایک گہری حیاتیاتی اور ماحولیاتی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ مفسر قرآن شیخ عبدالسلام بھٹوی نے سورۃ النحل کی آیات 68-69 کی تفسیر میں شہد کی مکھیوں کے پیچیدہ سماجی ڈھانچے اور ان کی تنظیمی ذہانت پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، شہد کی مکھیاں ایک منظم بادشاہی نظام کے تحت رہتی ہیں، جس کی سربراہ ایک ملکہ ہوتی ہے۔ یہ ملکہ دیگر مکھیوں سے جسامت اور ساخت میں ممتاز ہوتی ہے اور اسے خاص غذا “غذاء الملکہ” دی جاتی ہے، جو نہایت مقوی ہوتی ہے اور اسے تین ہفتوں میں چھ ہزار سے بارہ ہزار انڈے دینے کے قابل بناتی ہے۔
ہر مکھی کا ایک مخصوص کردار ہوتا ہے: کچھ دربان ہوتی ہیں، کچھ معمار جو مسدس خانوں والے چھتے بناتی ہیں، کچھ نرسیں، کچھ رس جمع کرنے والی، اور کچھ سپاہی جو چھتے کی حفاظت کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا
“فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا”
“پھر اپنے رب کے ہموار کیے ہوئے راستوں پر چل۔”
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکھیاں طویل فاصلہ طے کر کے بھی اپنے اصل چھتے میں واپس آتی ہیں، جو صرف اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ممکن ہے۔
شہد کی مکھیوں کا نظامِ زندگی نہایت صفائی، نظم و ضبط اور فطری حکمت پر مبنی ہے۔ یہ مکھیاں اپنے چھتے میں صفائی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ وہ فضلے کے لیے علیحدہ جگہ مخصوص کرتی ہیں، مردہ مکھیوں کو فوراً باہر نکال دیتی ہیں، اور اگر کوئی مکھی گندگی سے آلودہ ہو تو دربان مکھیاں اسے چھتے میں داخل ہونے نہیں دیتیں بلکہ بعض اوقات اسے مار بھی دیتی ہیں۔ اگر کوئی مکھی بے کار ہو جائے یا کوئی نئی ملکہ ظاہر ہو تو اسے بھی ختم کر دیا جاتا ہے تاکہ چھتے کا نظام برقرار رہے۔ یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ کی تخلیقی حکمت اور رہنمائی کا مظہر ہے، جیسا کہ سورۃ النحل کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہد کی رنگت، ذائقہ اور طبی خصوصیات اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ مکھیاں کن پھولوں اور پھلوں سے رس حاصل کرتی ہیں، اور یہ بھی کہ وہ کس علاقے اور موسم میں کام کر رہی ہیں۔ یہ تنوع اللہ تعالیٰ کی تخلیقی قدرت کی ایک اور نشانی ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا
“يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ”
یعنی “ان کے پیٹوں سے ایک مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں
(حوالہ: تفسیر القرآن الکریم، سورۃ النحل، آیت 68-69)
جدید سائنسی تحقیق اورشہد کے خصائص
جدید سائنسی تحقیق اب ان حقائق کو تسلیم کر رہی ہے جنہیں اسلامی علماء اور نبی کریم ﷺ نے صدیوں پہلے بیان فرمایا تھا۔ ایمسٹرڈم کے ایک میڈیکل سینٹر میں کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ شہد میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو انسانی جسم میں موجود نقصان دہ جراثیم کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ پیٹر اور تھانیا (2005) کے مطابق، شہد ایک حیاتیاتی زخم ڈریسنگ کے طور پر کام کرتا ہے، جس میں کئی حیاتیاتی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں جو زخموں کے بھرنے کے عمل کو تیز کرتی ہیں۔ یہ تحقیق اس اسلامی تصور کی تائید کرتی ہے کہ شہد صرف غذا نہیں بلکہ دوا بھی ہے۔
(حوالہ: Peter and Thanya, 2005)
طب نبوی ﷺ اور جدید طب کے درمیان فرق نہایت اہم ہے۔ جہاں جدید طب مشاہدے، تجربے اور مفروضات پر مبنی ہوتی ہے، وہیں طب نبوی ﷺ وحی الٰہی اور نبی کریم ﷺ کی کامل عقل پر مبنی ہے۔ اسلامی علماء جیسے ابن القیم اور امام ذہبی نے شہد کے بے شمار فوائد کو قلمبند کیا ہے، جن میں شامل ہیں: رگوں سے فاسد مادوں کا اخراج، بلغم کا تحلیل ہونا، جسم کی قوت میں اضافہ، جگر اور سینے کی صفائی، پیشاب آور دوا کے طور پر کام کرنا، اور کیڑے یا کتے کے کاٹے کے علاج میں مؤثر ہونا۔
(حوالہ: الذہبی، 1990، صفحات 151-153؛ ابن القیم، صفحہ 25)
حدیث :شہد میں شفاء ہے
اسلامی روایت میں شہد کو ایک مؤثر علاج کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے متعدد احادیث میں شہد کی شفا بخش خصوصیات کو بیان فرمایا ہے۔ ایک مشہور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا
“شفاء تین چیزوں میں ہے: شہد پینے میں، پچھنے لگوانے میں، اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔”
(صحیح البخاری، حدیث 5681)
یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ شہد طب نبوی ﷺ میں ایک بنیادی دوا ہے۔ یہ نہ صرف ایک غذائیت بخش مشروب ہے بلکہ جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے والا ایک قدرتی عنصر بھی ہے، جو خاص طور پر نظامِ ہضم، سانس کی بیماریوں اور جلدی امراض کے علاج میں مؤثر ہے۔

حدیث :پیٹ کے مریض کےلیے شفاء
:طب نبوی ﷺ میں شہد کے استعمال کی ایک نہایت مؤثر مثال وہ واقعہ ہے جس میں ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس کے بھائی کو پیٹ کی تکلیف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
“اسْقِهِ عَسَلًا”
“اسے شہد پلاؤ۔”
وہ شخص دوبارہ آیا اور کہا کہ افاقہ نہیں ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ شہد پلاؤ۔ تیسری بار بھی یہی جواب ملا۔ چوتھی بار جب وہ آیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا
“صَدَقَ اللَّهُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ”
“اللہ نے سچ فرمایا اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔”
(صحیح البخاری، حدیث 5684؛ صحیح مسلم، 7/26)
یہ واقعہ نہ صرف شہد کی افادیت کا ثبوت ہے بلکہ اس میں علاج کی مقدار اور تسلسل کی اہمیت کا بھی درس ہے۔ علماء جیسے ابن القیم اور قسطلانی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دوا کی صحیح مقدار نہایت ضروری ہے۔ اگر مقدار کم ہو تو فائدہ نہیں ہوتا، اور اگر زیادہ ہو تو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ شہد جب مناسب مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ نظامِ ہضم کو صاف کرتا ہے، زہریلے مادوں کو خارج کرتا ہے اور جسمانی توازن کو بحال کرتا ہے۔
(زاد المعاد، 4/30؛ قسطلانی، 1996، جلد 12، صفحہ 414-415)
ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں
“فإن العسل فيه جلاء ودفع للفضول… وكان قد أصاب المعدة أخلاط لزجة…”
(زاد المعاد، جلد 3، صفحہ 97-98)
ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں شہد کے استعمال اور اس کی مقدار کے اصول پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا شہد کو پیٹ کی بیماری کے علاج کے طور پر تجویز کرنا محض اتفاقی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک حکیمانہ فیصلہ تھا۔ مریض کی حالت دراصل معدے میں موجود فاسد مادوں اور چپچپے اخلاط کی زیادتی کی وجہ سے تھی، جس کی وجہ سے خوراک ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ شہد ایک قدرتی صفائی کرنے والا عنصر ہے، جو ان فاسد مادوں کو خارج کرتا ہے اور معدے کو صاف کرتا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی صحت کی تصدیق کی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا
“صَدَقَ اللَّهُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ”
“اللہ نے سچ فرمایا اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔”
(سلسلہ احادیث صحیحہ، حدیث 243)
شیخ البانی کے مطابق یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ طب نبوی ﷺ وحی پر مبنی ہے، اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ نبی کریم ﷺ کا شہد کو بار بار تجویز کرنا اس بات کی علامت ہے کہ علاج میں یقین، صبر اور تسلسل ضروری ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی بار شہد پلانے سے افاقہ نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دوا کی مقدار بیماری کے مطابق نہیں تھی۔ اگر مقدار زیادہ ہوتی تو نقصان کا اندیشہ تھا، اس لیے نبی کریم ﷺ نے بار بار شہد پلانے کا حکم دیا تاکہ مطلوبہ مقدار پوری ہو جائے اور مریض اللہ کے حکم سے صحت یاب ہو جائے۔
(فتح الباری، جلد 10، صفحہ 209)
امام قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ دوا کی مقدار، طریقہ استعمال، اور مریض کی حالت کے مطابق علاج کرنا طب کا ایک بنیادی اصول ہے۔ وہ لکھتے ہیں
“ادویہ کی مقدار، طریقہ، اور مرض و مریض کی قوت کے مطابق علاج کرنا طب کے عظیم اصولوں میں سے ہے۔”
(قسطلانی، 1996، جلد 12، صفحہ 414-415)
یہ تمام تشریحات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ طب نبوی ﷺ میں دوا کا انتخاب، اس کی مقدار، اور اس کا تسلسل ایک منظم اور حکیمانہ نظام کے تحت ہوتا ہے، جو جدید فارماکولوجی کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
جدید سائنسی تحقیق اور طب نبوی ﷺ: شہد کی دوہری افادیت
ڈاکٹر خالد غزنوی نے اپنی کتاب “طب نبوی ﷺ اور جدید سائنس” میں شہد کے استعمال کو جدید سائنسی اصولوں کے مطابق بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسہال کی بنیادی وجہ آنتوں میں سوزش ہوتی ہے، جو جراثیم، ان کے زہریلے مادوں یا وائرس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر ایسے مریض کی آنتوں کی حرکت کو فوری طور پر روک دیا جائے تو زہریلے مادے وہیں رہ جاتے ہیں اور سوزش برقرار رہتی ہے۔ اس لیے سب سے مؤثر طریقہ علاج یہ ہے کہ پہلے آنتوں کو صاف کیا جائے اور پھر جراثیم کو ختم کیا جائے۔
ڈاکٹرخالد غزنوی کے مطابق
“شہد میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ یہ دونوں کام کر سکتا تھا۔”
(طب نبوی ﷺ اور جدید سائنس، صفحہ 171)
یعنی شہد نہ صرف آنتوں کو صاف کرتا ہے بلکہ جراثیم کش بھی ہے، جو اسے ایک دوہری خصوصیت والا علاج بناتا ہے۔
ہومیوپیتھی اور طب نبوی ﷺ: اصولِ موافقتLike cures like
مولانا وحید الزماں نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اسے ہومیوپیتھک اصولوں کے مطابق قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ہومیوپیتھی میں علاج بالموافق کا اصول اپنایا جاتا ہے، یعنی وہ دوا دی جاتی ہے جو مرض سے مشابہ علامات پیدا کرے تاکہ جسم خود ردعمل دے کر شفا حاصل کرے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو اسہال ہو تو مسہل دوا دی جاتی ہے تاکہ فاسد مادے مکمل طور پر خارج ہو جائیں۔
مولانا وحید الزماں لکھتے ہیں
“یہ حدیث ہومیوپیتھک طبابت کی اصل اصول ہے…”
(ہدایت القاری، حدیث 5684، وحیدی)
اس کے برعکس، یونانی اور ایلوپیتھک طب میں علاج بالضد کا اصول اپنایا جاتا ہے، یعنی وہ دوا دی جاتی ہے جو مرض کی ضد ہو۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے طریقہ علاج کو اپنایا، جس میں شہد کو اسہال کے مریض کو دیا گیا تاکہ فاسد مادہ مکمل طور پر خارج ہو جائے، اور مریض صحت یاب ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ-شہد کا بیرونی استعمال اور روحانی شفا
علامہ عینی نے اپنی کتاب “عمدۃ القاری” میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ جب ان کے جسم پر پھنسیاں نکل آئیں تو وہ ان پر شہد لگاتے اور قرآن کی یہ آیت تلاوت کرتے
“فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ”
“اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔”(سورۃ النحل)
(عمدۃ القاری، جلد 14، صفحہ 672)
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ شہد نہ صرف جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا تھا بلکہ اس کے ساتھ روحانی نیت اور قرآن کی تلاوت بھی کی جاتی تھی، جو ایمان اور دوا کے امتزاج کو ظاہر کرتا ہے۔
Honey Benefits in Unni Medicine
شہد: ایک ہمہ گیر شفا بخش دوا اور سنتِ نبوی ﷺ
ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں شہد کی مختلف بیماریوں میں افادیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق شہد نہ صرف پیٹ کی خرابی اور بدہضمی کے لیے مفید ہے بلکہ جگر، گردے، دل کی کمزوری، زہریلے مادوں، سانس کی بیماریوں اور بخار جیسے امراض میں بھی مؤثر ہے۔ اس کی قدرتی ساخت اور ہمہ گیر افادیت اسے روایتی اسلامی طب اور جدید متبادل علاج دونوں میں ایک بنیادی دوا بناتی ہے۔
(زاد المعاد)
بہترین شہد اور اس کی خصوصیات
ابن القیم کے مطابق ہر شہد یکساں نہیں ہوتا۔ وہ فرماتے ہیں
“سب سے بہترین شہد وہ ہے جو سب سے زیادہ خالص، سفید، نرم اور میٹھا ہو۔ پہاڑوں سے حاصل ہونے والا شہد چھتوں کے شہد سے بہتر ہوتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مکھیاں کس چراگاہ سے رس حاصل کرتی ہیں۔
(زاد المعاد، جلد 4، صفحہ 30)
یہ بات جدید تحقیق سے بھی مطابقت رکھتی ہے کہ شہد کی افادیت اس کے نباتاتی ماخذ، جغرافیائی مقام اور پراسیسنگ کے طریقے پر منحصر ہوتی ہے۔ پہاڑی علاقوں کا شہد معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے، جو اسے زیادہ مؤثر بناتا ہے۔
شہد: نبیﷺ کی غذا
نبی کریم ﷺ نہ صرف شہد کو بطور دوا تجویز فرماتے تھے بلکہ خود بھی اسے پسند فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه الحلواء والعسل”
“نبی کریم ﷺ کو میٹھا اور شہد پسند تھا۔”
(صحیح البخاری، حدیث 5682)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ شہد ایک پسندیدہ سنتی غذا ہے، جس کا استعمال نہ صرف جسمانی فائدہ دیتا ہے بلکہ نیت کے ساتھ کرنے پر روحانی اجر بھی حاصل ہوتا ہے۔
شہد کی مکھیوں کے ساتھ حسن سلوک: ایک اسلامی تعلیم
اسلام میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے، اور شہد کی مکھی بھی اس میں شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل أربعة من الدواب: النملة، والنحلة، والهدهد، والصرد”
“نبی کریم ﷺ نے چار جانوروں کو مارنے سے منع فرمایا: چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور ایک خاص چڑیا۔”
(ابو داؤد 5267، ابن ماجہ 3224)
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شہد کی مکھی نہ صرف ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ اس کا تحفظ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔
شہد: روایتی اور جدید نسخوں میں بنیادی جزو
اسلامی تاریخ میں شہد کو طبی نسخوں میں بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسے آنکھوں کے انفیکشن، سانس کی بیماریوں، جوڑوں کے درد، دل کی بیماریوں، جلدی زخموں اور جلن کے علاج میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی شہد کو جدید قدرتی علاج میں استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کی اینٹی بیکٹیریل، اینٹی انفلامیٹری اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات کو سائنسی تحقیق نے تسلیم کیا ہے۔
اختتامیہ: شہد، ایک الٰہی اور سائنسی شفا
قرآن، حدیث اور سائنسی تحقیق کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہد ایک ایسی دوا ہے جو روحانی اور سائنسی دونوں اعتبار سے معتبر ہے۔ قرآن مجید میں اسے شفا قرار دیا گیا، نبی کریم ﷺ نے اسے تجویز فرمایا، اور آج کی سائنسی دنیا بھی اس کی افادیت کو تسلیم کرتی ہے۔
“فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ”
“اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔”
(سورۃ النحل: 69)
یہ آیت نہ صرف روحانی حقیقت ہے بلکہ طبی لحاظ سے بھی ایک جامع بیان ہے۔ شہد نظامِ ہضم کو صاف کرتا ہے، قوتِ مدافعت کو بڑھاتا ہے، زخموں کو بھرنے میں مدد دیتا ہے، اور جسم کو غذائیت فراہم کرتا ہے۔
قرآن مجید، احادیث نبوی ﷺ اور جدید سائنسی تحقیق کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شہد ایک ایسی نعمت ہے جو روحانی، جسمانی اور سائنسی ہر پہلو سے شفا کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں اسے “شفاء للناس” قرار دیا گیا، نبی کریم ﷺ نے اسے علاج کے طور پر تجویز فرمایا، اور آج کی سائنسی دنیا بھی اس کی افادیت کو تسلیم کرتی ہے۔
یہ صرف ایک روحانی بیان نہیں بلکہ ایک طبی حقیقت بھی ہے۔ شہد نہ صرف نظامِ ہضم کو درست کرتا ہے بلکہ قوتِ مدافعت کو بڑھاتا ہے، زخموں کو مندمل کرتا ہے، اور جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک مکمل قدرتی دوا ہے جو صدیوں سے انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔
سوالات و جوابات (FAQs): شہد اور اسلامی تعلیمات
سوال 1: کیا شہد کا ذکر قرآن میں آیا ہے؟
جی ہاں، سورۃ النحل (آیات 68-69) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
“فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ”
“اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔”
سوال 2: کیا نبی کریم ﷺ نے شہد کو علاج کے طور پر استعمال کیا؟
جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے شہد کو خاص طور پر پیٹ کی بیماریوں کے علاج کے لیے تجویز فرمایا۔(صحیح البخاری، حدیث 5681)
سوال 3: کیا شہد کھانانبی ﷺ کو پسندتھا؟
بالکل، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
“كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه الحلواء والعسل”
“نبی کریم ﷺ کو میٹھا اور شہد پسند تھا۔”(صحیح البخاری، حدیث 5682)
سوال 4: کیا شہد ہر بیماری کا علاج ہے؟
شہد میں عمومی شفا ہے، لیکن ہر بیماری کا مخصوص علاج نہیں۔ اس کی افادیت کا انحصار مقدار، طریقہ استعمال اور مریض کی حالت پر ہے، جیسا کہ ابن القیم اورعلامہ قسطلانی رحمہما اللہ نے وضاحت کی ہے۔
سوال 5: کیا اسلام میں شہد کی مکھی کو مارنا جائز ہے؟
نہیں، نبی کریم ﷺ نے شہد کی مکھی کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔(ابو داؤد 5267، ابن ماجہ 3224)
سوال 6: کیا شہد پیٹ کی بیماریوں کے لیے مؤثر ہے؟
جی ہاں، صحیح بخاری کی حدیث 5684 میں نبی کریم ﷺ نے شہد کو پیٹ کی بیماری کے علاج کے طور پر تجویز فرمایا، اور مسلسل استعمال سے مریض صحت یاب ہوا۔
سوال 7: اسلامی علماء کے مطابق بہترین شہد کون سا ہے؟
ابن القیم رحمہ اللہ کے مطابق
“سب سے بہترین شہد وہ ہے جو سب سے زیادہ خالص، سفید، نرم اور میٹھا ہو۔ پہاڑوں سے حاصل ہونے والا شہد بہتر ہوتا ہے۔”
(زاد المعاد، جلد 4، صفحہ 30)
سوال 8: کیا شہد زخموں اور انفیکشن کے لیے استعمال ہو سکتا ہے؟
جی ہاں، شہد ہزاروں سال سے زخموں کے علاج میں استعمال ہو رہا ہے۔ جدید سائنس نے بھی اس کی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کو تسلیم کیا ہے۔